خیبر صهیون تحقیقاتی ویب گاه



خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق انقلاب اسلامی کا مسئلہ اور حریت پسندی کے عالمی تفکر میں اس کا اثر و نفوذ اس انقلاب کے خلاف بہت بھاری تشہیری اور ابلاغی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے خلاف مختلف عناصر سے مرکب شدید اور ہمہ جہت لڑائی کا آغاز کیا جا چکا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اسے شکست سے دوچار کیا جاسکے۔
علاقے پر انقلاب اسلامی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم سابق سوویت روس کے زوال کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ سوویت روس کے زوال کا اصل سبب ایران نہ ہو لیکن اس کے زوال کے اسباب میں سے ایک ضرور ہے۔
یہودی ریاست کا ایک اعلی افسر جنرل افرایم سنہ (Efraim Sneh – אפרים סנה‎) اپنی کتاب ۲۰۰۰ کے بعد کا اسرائیل” میں ایک مکتب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو یہودی ریاست کے سامنے رکاوٹ بنا ہوا ہے اور وہ اس مکتب کو خمینی ازم” کا مکتب کہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انقلاب کے بعد مراجع تقلید حکومت کے ساتھ متحد ہوئے اور اسرائیل کی نابودی” کا نعرہ زور پکڑ گیا اور خمینی ازم کا تفکر ـ جو دین اور دینی حکومت پر استوار تفکر ہے ـ معرض وجود میں آیا۔
ایران نے اسرائیل مخالف عرب ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ایران ـ عرب اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ اقدام علاقے میں امریکہ کی مداخلت اور عراق کی حمایت کرکے ایران پر حملے سے علاقے کے توازن بگڑنے کا باعث بنا، اس طریقے سے کہ عربوں کو واحد دشمن” نظر آیا اور وہ مشترکہ دشمن ایران کے سوا کوئی نہ تھا۔
اسرائیل کی حیات کے لئے بحرانوں کو جنم دینا
ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں صرف چند ممالک نے ایران کی حمایت کی، جبکہ علاقے کے زیادہ تر ممالک نے ایران کے خلاف تلواریں سونت لیں اور اپنی پوری قوت عراق کے پلڑے میں ڈال دی اور اس کو مالی اور جانی امداد سمیت بڑی مقدار میں اسلحہ فراہم کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ عراق کو داعش کے ساتھ لڑائی میں جھونک دیا گیا ہے لیکن وہی عرب ممالک اب عراق کی مدد کو نہیں آئے۔
اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ جو بھی چیز انقلاب اسلامی کی نشوونما کے آگے رکاوٹ وہ یہودی ریاست کی نشوونما کا سبب ہوگی۔ عرب ممالک امریکہ کی گود میں بیٹھ کر یہودی ریاست کی چاپلوسانہ خدمت میں مصروف ہیں اور کافی حد تک خمینی ازم کی پیشرفت روکنے میں مؤثر واقع ہوئے اور اس کا نتیجہ یہودی ریاست کی پیشرفت کی صورت میں برآمد ہوا۔
آٹھ سالہ جنگ کے بعد یہودی ریاست اور اس کے حامی ممالک ایران کے ہاں جوہری بم بننے سے خائف تھے۔ چنانچہ امریکہ نے امریکہ، یورپ اور ایشیا میں جمہوری محاذ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بارآور ثابت نہیں ہوئی اور ایران میں جوہری بم بننے کا امکان بڑھ گیا، جس کی وجہ سے مغرب اور یہودی ریاست کی فکرمندی میں اضافہ ہوا اور اسی بنا پر ایران کے خلاف سازشوں میں بھی زبردست آصافہ ہوا۔
اپنی پیراسائٹ نوعیت کی حیات کے بچاؤ کے لئے یہودی ریاست کی ایک کوشش یہ تھی کہ ایران کو عالمی مالیاتی اداروں سے کسی قسم کا قرضہ نہ مل سکے تا کہ اسے اقتصادی گھٹن سے دوچار کیا جائے اور یہی مسئلہ ایران کے راستے کا پتھر رہے۔
بہرحال جس چیز نے مغرب کو تشویش میں مبتلا کیا وہ یہ ہے کہ ان کی ان تمام تر کوششوں اور سازشوں کے باوجود خمینی ازم کی آئیڈیالوجی نے علاقے میں نشوونما پائی جس کا نتیجہ اگلے عشروں میں اسرائیل کی نابودی اور زوال کی صورت میں برآمد ہوگا۔
مغرب کی جانب سے اس آئیڈیالوجی کی راہ میں رکاوٹ ڈلنے کے لئے ایران دشمن محاذ اور خمینی ازم کے فلسفے کے مخالف محاذ کا قیام تھا جو اہم ترین مغربی کوشش تھی۔ یہودی ریاست کو سنہ ۲۰۰۰ کے بعد ایسے ایران کا سامنا کرنا پڑا جس کا مقابلہ کرنے کا واحد اسلحہ ایٹم بم” اور دہشت گرد ٹولوں” سے عبارت تھا۔ لیکن امریکہ اپنے حلیفوں کا اعتماد حاصل کرکے ایران کے خلاف دھمکیوں پر اتر آیا تا کہ یہ ملک اپنے موقف سے پسپا ہوجائے۔
یہودی ریاست کی طفیلی زندگی (Parasitic Life)
سوویت روس کے خاتمے اور ایران کے شمال میں وسائل، معدنیات اور اچھی خاصی دولت کے مالک متعدد اسلامی ممالک کے معرض وجود میں آنے کے بعد مغرب اور یہودی ریاست کی لالچی آنکھیں ان ممالک کے دوہنے پر مرکوز ہوئیں۔ کیونکہ یہودی ریاست اپنی بقاء ہی طفیلیت میں دیکھتی ہے جبکہ خمینی ازم کا تفکر خود اعتمادی اور اپنے اوپر بھروسے پر استوار ہے اور یہ تفکر علاقے میں بہت زیادہ کامیاب رہا اور کافی حد تک یہودیوں کے ہاتھوں ان ممالک کے استحصال کی راہ میں رکاوٹ بنا۔
انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور بڑی طاقتوں اور مغرب کے خلاف جدوجہد کا تفکر ـ یا خمینی ازم کا تفکر ـ علاقے میں مغرب اور اس کے حلیفوں کے خلاف ایک یلغار کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنا جو مغرب اور یہودی ریاست کے لئے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ مغرب نے اس تفکر کو ایران تک ہی نہیں بلکہ جماران تک محدود کرنے کی کوشش کی اور آٹھ سالہ جنگ مسلط کی، ایران پر ہمہ جہت پابندیاں لگا دیں، ایران کے خلاف عربی محاذ قائم کیا، پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کو فروغ دیا، منافقین (یا نام نہاد مجاہدین خلق) کے ذریعے نظام اسلام کے مؤثر راہنماؤں کو قتل کرایا جو اس تفکر کو دنیا بھر میں فروغ دے سکتے تھے۔
مغرب اور مستکبرین کا کام ہی کمزوروں کا استحصال ہے اور ایران بھی کسی زمانے میں کمزور ممالک کے زمرے میں آتا تھا لیکن انقلاب اسلامی کے بعد اس دلدل سے نکل آیا؛ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغربی استکبار و استعمار کس طرح عرب ممالک کو ڈیری گایوں کی طرح دوہ رہا ہے۔ اکثر مغربی سرمایہ دار یہودی اور صہیونی ہیں اور وہ سب ایک چیز کے درپے ہیں: یہودی ریاست کو طاقتور بنانا اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کو ممکن بنانا۔
وہ یہودی مفکرین جو اپنے ذرائع ابلاغ میں ایران کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں دینی آئیڈیالوجی کا حامل ایران، جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران سے زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ وہ ایرانی عوام کے دینی افکار کے آگے تنازعات اور شکوک و شبہات کھڑے کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ کس قسم کی فکر ہے جس نے علاقے ہی کو نہیں پوری دنیا میں نزاع کھڑا کیا ہے اور دنیا بھر کو چیلنج کررہا ہے؟
جی ہاں یہ فکر خمینی کبیر کی فکر ہے جس نے ایک دنیا کو اپنے کلام سے بدل کر ڈالا، استکبار مخالف فکر، بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنے والی فکر، اور ان ممالک کے خلاف جنگ کی فکر جو صرف اپنے لئے حق حیات کے قائل ہیں اور دوسرے انسانوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی ہماری بھیڑیں ہیں اور باقی لوگ واجب القتل!!!
خمینی ازم کا تفکر
امام خمینی کا مکتب یا خمینی ازم نہیں چاہتا کہ صہیونیت طاقتور بنے وہ اس کے خلاف لڑتا ہے کیونکہ اس مکتب کے دانشور جانتے ہیں کہ اگر اسرائیل اور یہودی ریاست طفیلیت پر مبنی حیات کے ہوتے ہوئے علاقائی طاقت میں بدل جائے تو اس کا سب سے پہلا ہدف یہ ہوگا کہ اس کا کوئی ہمسر اور کوئی رقیب نہ رہے جبکہ اس کا سب سے پہلا اور بڑا دشمن ایران ہے اور دشمن نمبر ۲ عرب برادریاں ہیں لیکن عرب ممالک کے حکمران پوری حماقت میں علاقے کے اس طفیلی وجود کے جال میں پھنس چکے ہیں۔
بقلم: حیدر
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 


آخرین جستجو ها